حسرتیں بن کر نگاہوں سے برس جائیں گے ہم
ایک دن آئے گا جب ان کو بھی یاد آئیں گے ہم
چاندنی بن کر کبھی دامن پہ لہرائیں گے ہم
بن کے آنسو گاہ پلکوں پر ٹھہر جائیں گے ہم
شام کو جام مسرت بھر کے چھلکائیں گے ہم
صبح کو دور چراغ بزم بن جائیں گے ہم
پھر کہاں پائیں گے ہم کو نو عروسان چمن
جب فضائے رنگ و بو میں جذب ہو جائیں گے ہم
ٹوٹ جائے گا غرور بحر نا پیدا کنار
اس طرح بپھری ہوئی موجوں سے ٹکرائیں گے ہم
جب زمانہ خود ہی دھوکا بن گیا شوکتؔ تو پھر
کون جانے کس قدر دھوکے ابھی کھائیں گے ہم
غزل
حسرتیں بن کر نگاہوں سے برس جائیں گے ہم
شوکت پردیسی