EN हिंदी
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں | شیح شیری
hasrat hai tujhe samne baiThe kabhi dekhun

غزل

حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں

کشور ناہید

;

حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں تجھ سے مخاطب ہوں ترا حال بھی پوچھوں

دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں

جس نام سے تو نے مجھے بچپن سے پکارا
اک عمر گزرنے پہ بھی وہ نام نہ بھولوں

تو اشک ہی بن کے مری آنکھوں میں سما جا
میں آئینہ دیکھوں تو ترا عکس بھی دیکھوں

پوچھوں کبھی غنچوں سے ستاروں سے ہوا سے
تجھ سے ہی مگر آ کے ترا نام نہ پوچھوں

جو شخص کہ ہے خواب میں آنے سے بھی خائف
آئینۂ دل میں اسے موجود ہی دیکھوں

اے میری تمنا کے ستارے تو کہاں ہے
تو آئے تو یہ جسم شب غم کو نہ سونپوں