حسرت پائمال میں گم ہیں
ہم فریب خیال میں گم ہیں
بجھتی یادوں کے سرمئی سائے
شام رنج و ملال میں گم ہیں
ہم حصار وجود کے رہ رو
گردش لازول میں گم ہیں
شمع انسانیت کے نور فروغ
ظلمت انفعال میں گم ہیں
وہ ابد تک عروج کا پرتو
ہم ازل سے زوال میں گم ہیں
اب بھنور میں پھنسا ہے ماہی گیر
مچھلیاں جال جال میں گم ہیں
لالہ و گل یہ مہر و ماہ و نجوم
سب ترے خد و خال میں گم ہیں
شام غم کی ہزار ہا شامیں
میرے جام سفال میں گم ہیں
ہجر کی بے پناہ راتوں میں
لوگ شوق وصال میں گم ہیں
کشتیٔ زیست کھے رہے ہیں عطشؔ
بحر کار محال میں گم ہیں
غزل
حسرت پائمال میں گم ہیں
خواجہ ریاض الدین عطش