حسرت دید نہیں ذوق تماشا بھی نہیں
کاش پتھر ہوں نگاہیں مگر ایسا بھی نہیں
جبر دوزخ نہیں فردوس کا نشہ بھی نہیں
خوش ہیں اعراف میں ہم اور کوئی کھٹکا بھی نہیں
اب کسی حور میں باقی نہیں احساس کشش
میرے سر پر کسی آسیب کا سایہ بھی نہیں
وہ تو ایسا بھی ہے ویسا بھی ہے کیسا ہے مگر؟
کیا غضب ہے کوئی اس شوخ کے جیسا بھی نہیں
جس کا حق تھا کہ بنے سنگ ملامت کا ہدف
زہے تضحیک وہ اب شہر میں رسوا بھی نہیں
ڈھونڈھ کچھ اور ہی ابلاغ کی صورت اے سازؔ
شرح و تفسیر نہیں رمز و کنایہ بھی نہیں
غزل
حسرت دید نہیں ذوق تماشا بھی نہیں
عبد الاحد ساز