حسرت آب و گل دوبارہ نہیں
دیکھ دنیا نہیں ہمیشہ نہیں
سوچنے کا کوئی نتیجہ نہیں
سایہ ہے اعتبار سایہ نہیں
سادہ کاری کئی پرت کئی رنگ
سادگی اک ادائے سادہ نہیں
اچھے لگتے ہیں اچھے لوگ مجھے
جو سمجھتے ہیں ان سے پردہ نہیں
میں کہیں اور کس طرح جاؤں
تو کسی اور کے علاوہ نہیں
تجھ سے بھاگے سکون سے بھاگے
سر گراں ہیں کہ دل گرفتہ نہیں
رات زنجیر سی قدم بہ قدم
ایک منزل ہے کوئی جادہ نہیں
حسن تو ہو چلا زمانہ شناس
عشق کا بھی کوئی بھروسہ نہیں
سنتے ہیں اک جزیرہ ہے کہ جہاں
یہ بلائے حواس خمسہ نہیں
اے ستارو کسے پکارتے ہو
اس خرابے میں کوئی زندہ نہیں
چاندنی کھیلتی ہے پانی سے
اتنی برسات ہے کہ سبزہ نہیں
کیسے بے درد ہیں کہ جوڑتے ہیں
نرم الفاظ جن میں رشتہ نہیں
کہیں ایجاد محض بے مفہوم
کہیں مفہوم ہے تو لہجہ نہیں
کہیں تصویر ناک نقشے بغیر
کہیں دیوار ہے دریچہ نہیں
ان سے کاغذ میں جان کیسے پڑے
جن کی آنکھوں میں عکس تازہ نہیں
دشمنی ہے تو دشمنی ہی سہی
میں نہیں یا دکان شیشہ نہیں
خاک سے کس نے اٹھتے دیکھی ہے
وہ قیامت کہ استعارہ نہیں
کبھی ہر سانس میں زمان و مکاں
کبھی برسوں میں ایک لمحہ نہیں
بیکلی تار کستی جائے خزاںؔ
حسرت آب و گل دوبارہ نہیں
غزل
حسرت آب و گل دوبارہ نہیں
محبوب خزاں