حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے
مگر کلیوں کے کھلنے کا نتیجہ اور ہی کچھ ہے
نگاہیں مشتبہ ہیں میری پاکیزہ نگاہوں پر
مرے معصوم دل پر ان کو دھوکا اور ہی کچھ ہے
حسینوں سے محبت ہے انہیں پر جان دیتا ہوں
مرا شیوہ ہے یہ لیکن زمانا اور ہی کچھ ہے
بھلا کیا ہوش آئے گا بجھے گی کیا لگی دل کی
یہ آنچل سے ہوا دینے کا منشا اور ہی کچھ ہے
زبان و عقل و دل تعریف سے جس کی ہیں بیگانے
اسے سجدہ جو کرتا ہے وہ بندہ اور ہی کچھ ہے
تجھے ہر شے میں دیکھا سحرؔ نے ہر شے میں پہچانا
مگر پھر بھی ہے اک پردہ وہ پردہ اور ہی کچھ ہے

غزل
حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے
سحر عشق آبادی