EN हिंदी
حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی | شیح شیری
hasinon ke gale se lagti hai zanjir sone ki

غزل

حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی

اکبر الہ آبادی

;

حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
نظر آتی ہے کیا چمکی ہوئی تقدیر سونے کی

نہ دل آتا ہے قابو میں نہ نیند آتی ہے آنکھوں میں
شب فرقت میں کیوں کر بن پڑے تدبیر سونے کی

یہاں بیداریوں سے خون دل آنکھوں میں آتا ہے
گلابی کرتی ہے آنکھوں کو واں تاثیر سونے کی

بہت بے چین ہوں نیند آ رہی ہے رات جاتی ہے
خدا کے واسطے جلد اب کرو تدبیر سونے کی

یہ زردہ چیز ہے جو ہر جگہ ہے باعث شوکت
سنی ہے عالم بالا میں بھی تعمیر سونے کی

ضرورت کیا ہے رکنے کی مرے دل سے نکلتا رہ
ہوس مجھ کو نہیں اے نالۂ شب گیر سونے کی

چھپر کھٹ یاں جو سونے کی بنائی اس سے کیا حاصل
کرو اے غافلو کچھ قبر میں تدبیر سونے کی