حسیں تجھ سے ترا حسن طلب تھا
میں اپنے آپ کو حاصل ہی کب تھا
ادب ملحوظ تا حد ادب تھا
میں بینا بھی جو نا بینا لقب تھا
میں اپنے آپ سے بچھڑا تو جانا
نہ ملنا بھی ترے ملنے کا ڈھب تھا
ترے غم کی مسرت اللہ اللہ
جو نم دیدہ تھا وہ خندہ بہ لب تھا
ازل سے یوں تجھے سب جانتے ہیں
کوئی پہچانتا اب ہے نہ تب تھا
ہر اک لغزش پہ پھیلائے تھا بازو
ترا غم رہبرانہ بھی غضب تھا

غزل
حسیں تجھ سے ترا حسن طلب تھا
رام اوتار گپتا مضظر