EN हिंदी
حسیں تجھ سے ترا حسن طلب تھا | شیح شیری
hasin tujhse tera husn-e-talab tha

غزل

حسیں تجھ سے ترا حسن طلب تھا

رام اوتار گپتا مضظر

;

حسیں تجھ سے ترا حسن طلب تھا
میں اپنے آپ کو حاصل ہی کب تھا

ادب ملحوظ تا حد ادب تھا
میں بینا بھی جو نا بینا لقب تھا

میں اپنے آپ سے بچھڑا تو جانا
نہ ملنا بھی ترے ملنے کا ڈھب تھا

ترے غم کی مسرت اللہ اللہ
جو نم دیدہ تھا وہ خندہ بہ لب تھا

ازل سے یوں تجھے سب جانتے ہیں
کوئی پہچانتا اب ہے نہ تب تھا

ہر اک لغزش پہ پھیلائے تھا بازو
ترا غم رہبرانہ بھی غضب تھا