حسیں صبح حسیں شام چاہتا ہوں میں
کہ زندگی کو خوش انجام چاہتا ہوں میں
ذرا سا مسکرا کے میری طرف دیکھ تو لو
ہوں تشنہ بادۂ گلفام چاہتا ہوں میں
نہیں ہے شک کوئی اس میں تو نیک سیرت ہے
زمانے بھر میں ترا نام چاہتا ہوں میں
وہ جس کے واسطے کھائیں ہیں ٹھوکریں کتنی
اسی کو ہم سفر ہر گام چاہتا ہوں میں
ترا خیال ہو دل میں لبوں پہ ذکر ترا
کہ پھر سے یوں سحر و شام چاہتا ہوں میں
کرنؔ یہ کون کہے بڑھ کے میرے ساقی کو
کہ اس کے ہاتھوں سے اک جام چاہتا ہوں میں
غزل
حسیں صبح حسیں شام چاہتا ہوں میں
کرن سنگھ کرن