EN हिंदी
حسین راتوں جمیل تاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی | شیح شیری
hasin raaton jamil taron ki yaad si rah gai hai baqi

غزل

حسین راتوں جمیل تاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی

سیف الدین سیف

;

حسین راتوں جمیل تاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
کچھ اپنی اجڑی ہوئی بہاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی

ہر ایک محفل پڑی ہے سونی تمام میلے بچھڑ چکے ہیں
ستم گروں کی ستم شعاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی

غم وفا کہنے سننے والے کہاں گئے اہل دل نہ جانے
تمہاری الفت کے راز داروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی

وہ شام سے آرزو سحر کی وہ بے کلی رات رات بھر کی
ان آشنا آشنا ستاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی

ادھر بھی عہد وفا کے ٹکڑے کھٹک کے پہلو میں سو چکے ہیں
یہاں بھی ٹوٹے ہوئے سہاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی

گلا نہیں سیفؔ بے کسی کا کسی کا غم کون پوچھتا ہے
یہی بہت ہے کہ غم گساروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی