حسین راتوں جمیل تاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
کچھ اپنی اجڑی ہوئی بہاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
ہر ایک محفل پڑی ہے سونی تمام میلے بچھڑ چکے ہیں
ستم گروں کی ستم شعاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
غم وفا کہنے سننے والے کہاں گئے اہل دل نہ جانے
تمہاری الفت کے راز داروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
وہ شام سے آرزو سحر کی وہ بے کلی رات رات بھر کی
ان آشنا آشنا ستاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
ادھر بھی عہد وفا کے ٹکڑے کھٹک کے پہلو میں سو چکے ہیں
یہاں بھی ٹوٹے ہوئے سہاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
گلا نہیں سیفؔ بے کسی کا کسی کا غم کون پوچھتا ہے
یہی بہت ہے کہ غم گساروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
غزل
حسین راتوں جمیل تاروں کی یاد سی رہ گئی ہے باقی
سیف الدین سیف