EN हिंदी
حسیں کتنا زیادہ ہو گیا ہے | شیح شیری
hasin kitna ziyaada ho gaya hai

غزل

حسیں کتنا زیادہ ہو گیا ہے

حسن عباسی

;

حسیں کتنا زیادہ ہو گیا ہے
وہ جب سے اور سادہ ہو گیا ہے

چلو ہم بھی محبت کر ہی لیں گے
اگر اس کا ارادہ ہو گیا ہے

بھلا دوں گا اسے اگلے جنم تک
مرا اس سے یہ وعدہ ہو گیا ہے

گھڑی بھر اس کی آنکھوں میں اتر کر
سمندر بھی کشادہ ہو گیا ہے

بچھڑنے کا اسے بھی دکھ ہے شاید
کہ اب تو وہ بھی آدھا ہو گیا ہے