حشر مرا بخیر ہو مجھ کو بنا رہے ہو تم
خاک میں جان ڈال کر خاک اڑا رہے ہو تم
عبرت ذوق زہر خندۂ ذوق زبونی دو چند
شوق بڑھا کے پے بہ پے شمعیں بجھا رہے ہو تم
میرے عدم میں بھی بہم تھا ستم ازل کا غم
پہلے ہی میں نزار تھا اور ستا رہے ہو تم
سوز تو سوز ہے مگر ساز بھی سوز ہو نہ جائے
ساز کو آج سوز کے سامنے لا رہے ہو تم
درخور سجدہ ہے ابھی اور ابھی ننگ زندگی
عشق وفا سرشت کو خوب رلا رہے ہو تم
تہمت ہست بھی روا حاصل نیست بھی بجا
ہاں مری سر نوشت کے داغ مٹا رہے ہو تم
خندۂ زیر لب بھی ہے گریۂ بے سبب بھی ہے
بے ہمہ و بہر ادا رنگ جما رہے ہو تم
غزل
حشر مرا بخیر ہو مجھ کو بنا رہے ہو تم
م حسن لطیفی