حسب معمول آئے ہیں شاخوں میں پھول اب کے برس
سایہ افگن ہیں مگر ان پر ببول اب کے برس
اس طرح بدلا محبت کا اصول اب کے برس
ہم بھی ہیں مغموم تم بھی ہو ملول اب کے برس
جھونپڑوں سے کٹ کے چاندی کے بگولے چل دیئے
بالا بالا اڑ گئی سونے کی دھول اب کے برس
اتنے غم اتنے مسائل اتنے عنوان سخن
ہے جدا ہر شعر کی شان نزول اب کے برس
کٹ گئیں صدیاں اسی موہوم سی امید پر
آسماں سے ہوگا رحمت کا نزول اب کے برس
مٹ گئی تحریر قسمت اٹھ گئے انجم شناس
عقل خود کرتی ہے تدبیر حصول اب کے برس
انقلاب آثار ہے رفتار ماہ و سال کی
کچھ تو بدلے گا زمانے کا اصول اب کے برس
غزل
حسب معمول آئے ہیں شاخوں میں پھول اب کے برس
اقبال ماہر