حسب فرمان امیر قافلہ چلتے رہے
پا بجولاں دیدۂ و لب دوختہ چلتے رہے
بے بصیرت منزلیں گرد سفر ہوتی رہیں
اور ہم بے مقصد و بے مدعا چلتے رہے
فصل گل کی چاپ تھی اس طبع نازک پر گراں
تھا سفر خوشبو کا غنچے بے صدا چلتے رہے
کاجلی راتوں میں سورج کے حوالے سو گئے
اقتباس اپنے لہو سے لے لیا چلتے رہے
سوئے منزل پیٹھ تھی آوارگی جاری رہی
فاصلہ ہر گام پر بڑھتا رہا چلتے رہے
جب یہ دیکھا پیرہن کا تار تک باقی نہیں
کر کے زیب جسم زخموں کی قبا چلتے رہے
آپ کیا ہم خود بھی سن پائے نہ دل کی دھڑکنیں
اپنے سینے پر قدم رکھ کر سدا چلتے رہے

غزل
حسب فرمان امیر قافلہ چلتے رہے
سید نصیر شاہ