حسد کی آگ تھی اور داغ داغ سینہ تھا
دلوں سے دھل نہ سکا وہ غبار کینہ تھا
ذرا سی ٹھیس لگی تھی کہ چور چور ہوا
ترے خیال کا پیکر بھی آبگینہ تھا
رواں تھی کوئی طلب سی لہو کے دریا میں
کہ موج موج بھنور عمر کا سفینہ تھا
وہ جانتا تھا مگر پھر بھی بے خبر ہی رہا
عجیب طور تھا اس کا عجب قرینہ تھا
بہت قریب سے گزرے مگر خبر نہ ہوئی
کہ اجڑے شہر کی دیوار میں دفینہ تھا
غزل
حسد کی آگ تھی اور داغ داغ سینہ تھا
خلیل تنویر