EN हिंदी
حسد کی آگ تھی اور داغ داغ سینہ تھا | شیح شیری
hasad ki aag thi aur dagh dagh sina tha

غزل

حسد کی آگ تھی اور داغ داغ سینہ تھا

خلیل تنویر

;

حسد کی آگ تھی اور داغ داغ سینہ تھا
دلوں سے دھل نہ سکا وہ غبار کینہ تھا

ذرا سی ٹھیس لگی تھی کہ چور چور ہوا
ترے خیال کا پیکر بھی آبگینہ تھا

رواں تھی کوئی طلب سی لہو کے دریا میں
کہ موج موج بھنور عمر کا سفینہ تھا

وہ جانتا تھا مگر پھر بھی بے خبر ہی رہا
عجیب طور تھا اس کا عجب قرینہ تھا

بہت قریب سے گزرے مگر خبر نہ ہوئی
کہ اجڑے شہر کی دیوار میں دفینہ تھا