ہرزہ سرائی بین سخن اور بڑھ گئی
سستا ہوا تو قیمت فن اور بڑھ گئی
جانا کہ دوست ہی تھا مسیحا کے روپ میں
دل پر رکھا جو ہاتھ جلن اور بڑھ گئی
جانے کہاں سے آئی تھی کل رات کو ہوا
کھڑکی کھلی تو گھر میں گھٹن اور بڑھ گئی
پہلے ہی ہاتھ پاؤں حسیں کم نہ تھے مگر
رنگ حنا سے ان کی پھبن اور بڑھ گئی
یوم جزا میں فتنۂ محشر کی خیر ہو
پہلے ہی جو تھی سرو بدن اور بڑھ گئی
صحرا کو دیکھنے کا تو بچپن سے شوق تھا
دل کو لگا لیا تو لگن اور بڑھ گئی
وہ تو مرے منانے سے اخترؔ بگڑ گئے
ماتھے پہ ایک گہری شکن اور بڑھ گئی
غزل
ہرزہ سرائی بین سخن اور بڑھ گئی
جنید اختر