حریم ناز سے آتا ہے بہرہ ور کوئی
دل آئینہ پہ لیے نقش فی الحجر کوئی
حصار درد کی اونچائی بڑھتی جاتی ہے
خوشی کی آندھیاں آ کر بنائیں در کوئی
پڑا ہے یادوں کے حجرے میں قفل مدت سے
ہنوز دیتا ہے دستک سی معتبر کوئی
چمکتی راہ تو نظروں سے ہے ابھی اوجھل
چراغ چرخ کی ملتی نہیں خبر کوئی
یہ شام ڈالے ہوئے تن پہ سرمئی چادر
گلا کرے گی سیہ شب سے مختصر کوئی
تمام خواہشیں خاشاک میں ہوئیں تبدیل
گھڑی میں شعلہ نہ کر دے کہیں شرر کوئی
تری زبان سے لپٹی ہے چاشنئی ہوس
کہاں سے آئے تری بات میں اثرؔ کوئی

غزل
حریم ناز سے آتا ہے بہرہ ور کوئی
مرغوب اثر فاطمی