حریم دل سے نکل آنکھ کے سراب میں آ
مری طرح کبھی میدان اضطراب میں آ
پیمبروں کی زبانی کہی سنی ہم نے
وہ کہہ رہا تھا کہ میرے بھی انتخاب میں آ
سنا ہے آج عماری فلک سے اترے گی
مجھے بھی نیند گر آئے تو میرے خواب میں آ
تجھے خدائی کا دعویٰ ہے گر تو کم سے کم
زمین پر کوئی دن رنگ بو تراب میں آ
ابھی ہیں سارے سوالات تشنہ کام مرے
اٹھا کے کاندھے پہ مینا مرے جواب میں آ
اتار دی ہیں بھنور میں بھی کشتیاں ہم نے
سمندروں میں اگر ہے تو اس حباب میں آ
غزل
حریم دل سے نکل آنکھ کے سراب میں آ
عفیف سراج