حریف وقت ہوں سب سے جدا ہے راہ مری
نہ قصر شاہ سے نسبت نہ خانقاہ مری
کسی سے کوئی تعلق نہ رسم و راہ مری
کہ اب ہے خیمہ تنہائی خانقاہ مری
نہ جانے کس کے تجسس میں غرق رہتی ہے
بھٹکتی پھرتی ہے چاروں طرف نگاہ مری
کسی کے روبرو میں سرنگوں ہوا ہی نہیں
مری انا نے سلامت رکھی کلاہ مری
میں اپنے ملک سخن سے فراز چاہتا ہوں
مجھے حصار میں رکھتی ہے اب سپاہ مری
چراغ کس لئے دہلیز وں پہ روشن ہیں
یہ کس کی دید کو آنکھیں ہیں فرش راہ مری
کچلتا رہتا ہوں خوف خدا سے شام او سحر
کہ سر اٹھاتی نہیں خواہش گناہ مری
میں اپنے آپ میں سرسبز پھر بھی رہتا ہوں
اگرچہ کشت تمنا ہے بے گیاہ مری
نہ جانے کتنے دلوں میں شگاف کر ڈالے
اگر نکل گئی اخترؔ جو دل سے آہ مری

غزل
حریف وقت ہوں سب سے جدا ہے راہ مری
سلطان اختر