حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
کس قاتل کا نام لکھا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
خون سے جلتا ایک دیا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
آج بھی کتنی گرم ہوا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
کروٹ لے کر ایک قیامت جاگنے والی ہے اب شاید
کہنے کو اک سناٹا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
سہما سہما کھویا کھویا کب سے بیٹھا سوچا رہا ہوں
کس نے مجھ کو قید کیا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
سب جانے پہچانے چہرے میں بھی تو بھی یہ بھی وہ بھی
لاشوں کا اک شہر بسا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
لفظوں کی دیوار کے آگے عکس ابھر آیا ہے کس کا
خنجر لے کر کون کھڑا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
روح غزل پر تنہائی میں جانے کتنے وار ہوئے ہیں
مصرع مصرع تھراتا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے

غزل
حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
کنول ضیائی