حرف حرف گوندھے تھے طرز مشکبو کی تھی
تم سے بات کرنے کی کیسی آرزو کی تھی
ساتھ ساتھ چلنے کی کس قدر تمنا تھی
ساتھ ساتھ کھونے کی کیسی جستجو کی تھی
وہ نہ جانے کیا سمجھا ذکر موسموں کا تھا
میں نے جانے کیا سوچا بات رنگ و بو کی تھی
اس ہجوم میں وہ پل کس طرح سے تنہا ہے
جب خموش تھے ہم تم اور گفتگو کی تھی
غزل
حرف حرف گوندھے تھے طرز مشکبو کی تھی
زہرا نگاہ