EN हिंदी
حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا | شیح شیری
harf-e-inkar ki iqrar-e-wafa tha kya tha

غزل

حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا

حسرت دیوبندی

;

حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا
خط میں اک جملۂ مبہم سا لکھا تھا کیا تھا

اس کا چہرہ تھا قمر تھا کہ تصور میرا
کل منڈیری پہ کوئی جلوہ نما تھا کیا تھا

یک بیک ہو گیا اوجھل وہ نظر کے آگے
دھند کا ایک بگولہ سا اٹھا تھا کیا تھا

مسکراتا تھا مگر آنکھ بھی نم تھی اس کی
اس کے سینے میں کوئی درد چھپا تھا کیا تھا

صبح تک لٹ گیا سندور کئی مانگوں کا
شب کے سناٹے میں اک شور اٹھا تھا کیا تھا

بد دعا تھی کہ دعا یہ وہی جانے حسرتؔ
زیر لب اس نے مگر کچھ تو کہا تھا کیا تھا