حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا
خط میں اک جملۂ مبہم سا لکھا تھا کیا تھا
اس کا چہرہ تھا قمر تھا کہ تصور میرا
کل منڈیری پہ کوئی جلوہ نما تھا کیا تھا
یک بیک ہو گیا اوجھل وہ نظر کے آگے
دھند کا ایک بگولہ سا اٹھا تھا کیا تھا
مسکراتا تھا مگر آنکھ بھی نم تھی اس کی
اس کے سینے میں کوئی درد چھپا تھا کیا تھا
صبح تک لٹ گیا سندور کئی مانگوں کا
شب کے سناٹے میں اک شور اٹھا تھا کیا تھا
بد دعا تھی کہ دعا یہ وہی جانے حسرتؔ
زیر لب اس نے مگر کچھ تو کہا تھا کیا تھا
غزل
حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا
حسرت دیوبندی