حرف بے مطلب کی میں نے کس قدر تفسیر کی
شکل پہچانی گئی پھر بھی نہ اس تصویر کی
صبح کا دروازہ کھلتے ہی چلو گلشن کی سمت
رنگ اڑ جائے گا پھولوں کا اگر تاخیر کی
قید میرے جسم کے اندر کوئی وحشی نہ ہو
سانس لیتا ہوں تو آتی ہے صدا زنجیر کی
تیرے چہرے پر جو لکھا تھا مری آنکھوں میں ہے
حفظ ہے مجھ کو عبارت اب بھی اس تحریر کی
تجھ کو دیکھا بھی نہیں لیکن تیری خواہش بھی ہے
ریت کی دیوار سطح آب پر تعمیر کی
گھر کی ویرانی در و دیوار کے اندر رہی
میں نے اپنے درد کو مہلت نہ دی تشہیر کی
میں نے لوح عرش پر لکھا ہوا سب پڑھ لیا
لا مری آنکھوں میں مٹی دے مری تقدیر کی
مہر و مہ لگتے ہیں اپنے جسم کے ذرے مجھے
سوچتا ہوں کون سی منزل ہے یہ تسخیر کی
لٹ چکے وہ ہاتھ شاہد جن سے مانگی تھی دعا
ہاں ابھی تک ہے فضاؤں میں مہک تاثیر کی

غزل
حرف بے مطلب کی میں نے کس قدر تفسیر کی
سلیم شاہد