ہرے موسم کھلیں گے سونا بن کے خاک بدلے گی
کہاں تک یہ زمیں آخر نئی پوشاک بدلے گی
حسیں معصوم ہونٹوں پر محبت کے سبق تازہ
کبھی تو آدمی کی فطرت چالاک بدلے گی
رواں ہے آب و خوں سر پتھروں کو پھوڑنے دیجے
ندی سیلاب کی رو میں خس و خاشاک بدلے گی
سلیقہ زندگی کی وحشتوں کو ملنے والا ہے
قبا اس کی یقیناً دامن صد چاک بدلے گی
چھبکتی شبنمیں آنکھوں میں نجم و گل کے افسانے
نئی کروٹ ابھی شاید ہماری خاک بدلے گی
دھلے کپڑوں پہ داغ خوشبو رنگ زندگی روشن
تری قربت سے دل کی سر زمین پاک بدلے گی
غزل
ہرے موسم کھلیں گے سونا بن کے خاک بدلے گی
ذکاء الدین شایاں