ہرے درخت کا شاخوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
ہوا چلی تو گلابوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
کہاں ہیں اب وہ مہکتے ہوئے حسیں منظر
کھلی جو آنکھ تو خوابوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
ذرا سی دیر میں بیمار غم ہوا رخصت
پلک جھپکتے ہی لوگوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
گلاب تتلی دھنک روشنی کرن جگنو
ہر ایک شے کا نگاہوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
اٹھی جو صحن میں دیوار اختلاف بڑھے
زمیں کے واسطے اپنوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
کتاب زیست کا ہر صفحہ سادہ ہے نیرؔ
قلم کی نوک کا لفظوں سے رشتہ ٹوٹ گیا

غزل
ہرے درخت کا شاخوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
اظہر نیر