EN हिंदी
حرم ہے کیا چیز دیر کیا ہے کسی پہ میری نظر نہیں ہے | شیح شیری
haram hai kya chiz dair kya hai kisi pe meri nazar nahin hai

غزل

حرم ہے کیا چیز دیر کیا ہے کسی پہ میری نظر نہیں ہے

فنا بلند شہری

;

حرم ہے کیا چیز دیر کیا ہے کسی پہ میری نظر نہیں ہے
میں تیرے جلووں میں کھو گیا ہوں مجھے اب اپنی خبر نہیں ہے

جنہیں ہے ڈر راہ امتحاں سے انہیں ابھی یہ خبر نہیں ہے
اگر کرم ان کا راہبر ہو کٹھن کوئی رہ گزر نہیں ہے

بہ شوق سجدہ چلے ہیں لیکن عجیب مسلک ہے عاشقوں کا
وہاں عبادت حرام ٹھہری جہاں ترا سنگ در نہیں ہے

تری طلب تیری آرزو میں نہیں مجھے ہوش زندگی کا
جھکا ہوں یوں تیرے آستاں پر کہ مجھ کو احساس سر نہیں ہے

تری نوازش مری مسرت مری تباہی جلال تیرا
کہیں نہیں ہے مرا ٹھکانہ جو تیری سیدھی نظر نہیں ہے

جہاں بھی ہے کوئی مٹنے والا تری عنایت کے سائے میں ہے
بنا لیا جس کو تو نے اپنا جہاں میں وہ در بدر نہیں ہے

ہر اک جگہ تو ہی جلوہ گر ہے وہ بت کدہ ہو یا طور سینا
نگاہ دنیا ہے کور باطن تری تجلی کدھر نہیں ہے

یہیں پہ جینا یہیں پہ مرنا یہیں ہے دنیا یہیں ہے عقبیٰ
فناؔ در یار کے علاوہ کہیں ہمارا گزر نہیں ہے