ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے
زمیں کے جسم پہ کوئی لباس رہنے دے
کہیں نہ راہ میں سورج کا قہر ٹوٹ پڑے
تو اپنی یاد مرے آس پاس رہنے دے
بکھر چکے ہیں سماعت کے تلخ شیرازے
اب اپنے نرم لبوں کی مٹھاس رہنے دے
وہ دیکھ ڈھ چکیں وہم و گماں کی دیواریں
یقین چیخ رہا ہے قیاس رہنے دے
بڑا لطیف اندھیرا ہے روشنی نہ جلا
عروس شب کو ابھی خوش لباس رہنے دے
تصورات کے لمحوں کی قدر کر پیارے
ذرا سی دیر تو خود کو اداس رہنے دے
غزل
ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے
سلطان اختر