ہرا بھرا تھا چمن میں شجر اکیلا تھا
شجر پہ برگ بہت تھے ثمر اکیلا تھا
بقائے نور فلک پر بھی ہو گئی مشکل
امڈ رہی تھیں گھٹائیں قمر اکیلا تھا
یہی تو ایک تماشہ پس تماشا تھا
تماش بیں تھے بہت دیدہ ور اکیلا تھا
رفاقتوں سے یہ تنہائی کم نہیں ہوتی
شریک بزم تو تھا میں مگر اکیلا تھا
گناہ عشق کی کیسی سزا ملی ہم کو
کہ سنگ بار زیادہ تھے سر اکیلا تھا
کیا تھا ہم نے سفر ساتھ ساتھ یوں عالمؔ
کہ میں اکیلا مرا ہم سفر اکیلا تھا
غزل
ہرا بھرا تھا چمن میں شجر اکیلا تھا
انتخاب عالم