ہر ذہن روایات کا مقتل نہ ہوا تھا
وہ آج ہوا ہے جو یہاں کل نہ ہوا تھا
کیوں دوڑ پڑی خلق اس اک شخص کے پیچھے
کیا شہر میں آگے کوئی پاگل نہ ہوا تھا
تھے بند مکانوں کی طرح لوگ پراسرار
اک باب سخن تھا جو مقفل نہ ہوا تھا
دل خون کیا تم نے تو پانی ہوئے جذبے
یہ مسئلہ مجھ سے تو کبھی حل نہ ہوا تھا
تاریک تھا اپنی ہی نظر کا کوئی پہلو
سورج تو کبھی آنکھ سے اوجھل نہ ہوا تھا
یوں اس کی شجاعت ہوئی مشکوک پس جنگ
تنہا وہ سپاہی تھا جو گھایل نہ ہوا تھا
کب صفحۂ ہستی پہ تھی قائم کوئی صورت
وہ نقش تھا باقی جو مکمل نہ ہوا تھا
تھی دن کی کھلی دھوپ مرے خون کی پیاسی
سر میرا چراغ شب مقتل نہ ہوا تھا
غزل
ہر ذہن روایات کا مقتل نہ ہوا تھا
نور محمد یاس