ہر زخم دل سے انجمن آرائی مانگ لو
پھر شہر پر ہجوم سے تنہائی مانگ لو
موسم کا ظلم سہتے ہیں کس خامشی کے ساتھ
تم پتھروں سے طرز شکیبائی مانگ لو
حسن تعلقات کی جو یادگار تھے
ماضی سے ایسے لمحوں کی رعنائی مانگ لو
مانگو سمندروں سے نہ ساحل کی بھیک تم
ہاں فکر و فن کے واسطے گہرائی مانگ لو
سمجھو انہیں جو دیتے ہیں یہ مشورہ تمہیں
نرگس سے ہاتھ جوڑ کے بینائی مانگ لو
وہ سو کے جیوں ہی اٹھیں پہنچ جاؤ ان کے پاس
اور ان سے انقلاب کی انگڑائی مانگ لو
نجمیؔ سنا ہے تم پہ بھی موسم ہے مہرباں
باد سموم سے کبھی پروائی مانگ لو

غزل
ہر زخم دل سے انجمن آرائی مانگ لو
حسن نجمی سکندرپوری