ہر زباں پر ہے گفتگو تیری
ہے ہر اک دل میں آرزو تیری
مہر و مہ دونوں تجھ سے ششدر ہیں
یہ تجلی ہے چار سو تیری
مے سے اے شیخ گر طہارت کر
آبرو ہو دم وضو تیری
زلف سنبل ہے اور کمر رگ گل
ہے یہ تعریف مو بہ مو تیری
گل نہ پھولیں سمائے جامہ میں
گر صبا سے وہ پائیں بو تیری
لائی آہو کو دام میں گویا
آنکھ پر زلف مشکبو تیری
در دنداں پہ تو فدا احقرؔ
چشم گریاں ہے آبرو تیری
غزل
ہر زباں پر ہے گفتگو تیری
رادھے شیام رستوگی احقر