ہر عضو بدن ایک سے ہے ایک ترا خوب
سینے کی صفائی سے ہے چہرے کی صفا خوب
قاصد کے بدن پر الف زخم لگے ہیں
خط کا مرے لکھا یہ جواب آپ نے کیا خوب
آگاہ نہیں ہے کوئی احوال سے میرے
جو مجھ پہ گزرتی ہے وہ جانے ہے خدا خوب
بن بن کے دہن حلقۂ گیسوئے مسلسل
لوٹے ہے ترے بوسۂ عارض کا مزا خوب
ابتر ہوا جو شعر کہا زلف کا تیری
باندھا کوئی مضمون حنا کا تو بندھا خوب
مدفوں کیا تیری ہی گلی میں اسے آخر
پائی ترے عاشق نے پس مرگ بھی جا خوب
دو چار ہی شب ماہ تو رہتا ہے نہفتہ
مدت ہوئی دیکھا نہیں وہ ماہ چھپا خوب
شربت کے عوض سودۂ الماس پلایا
کی آپ نے بیمار محبت کی دوا خوب
رک رک کے جو دم نکلے ہے مذبوح کا تیرے
کیا خنجر خونخوار ترا تیز نہ تھا خوب
مغرور نہ ہونا کرم یار پہ غافلؔ
پائے گا ابھی دل کے لگانے کی سزا خوب
غزل
ہر عضو بدن ایک سے ہے ایک ترا خوب
منور خان غافل