EN हिंदी
ہر طرح یوں ہے دوں ہے بے معنی | شیح شیری
har tarah yun hai dun hai be-mani

غزل

ہر طرح یوں ہے دوں ہے بے معنی

نوح ناروی

;

ہر طرح یوں ہے دوں ہے بے معنی
عشق بھی اک جنوں ہے بے معنی

مل گیا مژدۂ بہار مجھے
کیا یہ ہیجان خوں ہے بے معنی

سن رہا ہوں کہ وہ نہیں سنتے
شرح حال زبوں ہے بے معنی

وعدۂ حشر کا بھروسہ کیا
ہاں ہے بے کار ہوں ہے بے معنی

غم کی پر اضطرار راہوں میں
جستجوئے سکوں ہے بے معنی

حسن کی ایک ایک بات فسوں
عشق کا ہر فسوں ہے بے معنی

جیسے اس کا وجود کچھ بھی نہ ہو
سرگزشت اپنی یوں ہے بے معنی

جلوۂ رخ ہے ان کا با مطلب
اپنا سوز دروں ہے بے معنی

شوق کا تکملہ نہیں ہوتا
ذوق دنیائے دوں ہے بے معنی

جس سے وحشت کو خود نہ وحشت ہو
اس طرح کا جنوں ہے بے معنی

غم نے بجلی بنا دیا دل کو
امتحان سکوں ہے بے معنی

وہ یہ کہہ کر کبھی نہیں سنتے
حال سوز دروں ہے بے معنی

چشم بد دور ان کی آنکھوں میں
سامری کا فسوں ہے بے معنی

عشق ناکام حسن کا قصہ
کیا کہوں کیا سنوں ہے بے معنی

نوحؔ طوفان بحر الفت میں
فکر ضبط و سکوں ہے بے معنی