ہر طرف شور ہے مانیؔ چمن آرائی ہے
تو بھی پھر درس فغاں دے کہ بہار آئی ہے
بے طلب سب نے یہاں داد ستم پائی ہے
حشر ہے نالہ نہ کرنے میں بھی رسوائی ہے
واقعی کچھ نہیں یا کچھ نظر آتا ہی نہیں
دل مہجور یہ ظلمت ہے کہ تنہائی ہے
مدعا میرے جنوں کا تو ہے تحسین بہار
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سودائی ہے
آستاں جذب جبیں ہے مگر اے فطرت عشق
میں ہوں اور حوصلۂ ناصیہ فرسائی ہے
آ کہ امداد تصور سے بھی محروم ہوں اب
اور دل سجدۂ آخر کا تمنائی ہے
سب رہے صرف بدلتا رہا محفل کا نظام
تو ہے اور سلسلۂ انجمن آرائی ہے
سارے عالم کی رقابت کا جنوں ہے مجھ کو
اور بنیاد جنوں آپ کی یکتائی ہے
تو بھی ہے ان کے لئے منظر عبرت مانیؔ
جن کا یوں دیدۂ حسرت سے تماشائی ہے
غزل
ہر طرف شور ہے مانیؔ چمن آرائی ہے
مانی جائسی