ہر طرف پردہ دار ظلمت ہے
اک تبسم کی پھر ضرورت ہے
ٹھہری ٹھہری ہے وقت کی رفتار
عالم غور میں مشیت ہے
ہے گماں کیا یقین کا سایہ
اور یقیں واہمے کی شدت ہے
عشق بھی زندگی کی لعنت تھا
عقل بھی زندگی کی لعنت ہے
خود نمائی میں جو حجاب رہے
تیرگی اس کی اک علامت ہے
شور تحسین ناروا سے جمیلؔ
یہ خموشی بسا غنیمت ہے
غزل
ہر طرف پردہ دار ظلمت ہے
جمیلؔ مظہری