ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا
ہر نئے دن نیا انتظار آدمی
گھر کی دہلیز سے گیہوں کے کھیت تک
چلتا پھرتا کوئی کاروبار آدمی
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی
غزل
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
ندا فاضلی