EN हिंदी
ہر طرف دھوپ کی چادر کو بچھانے والا | شیح شیری
har taraf dhup ki chadar ko bichhane wala

غزل

ہر طرف دھوپ کی چادر کو بچھانے والا

ساجد پریمی

;

ہر طرف دھوپ کی چادر کو بچھانے والا
کام پر نکلا ہے دنیا کو جگانے والا

اپنے ہر جرم کو پرکھوں کی وراثت کہہ کر
عیب کو ریت بتاتا ہے بتانے والا

آج اک لاش کی صورت وہ نظر آتا ہے
آتماؤں سے ملاقات کرانے والا

عقل کی آنکھ سے دیکھا ہے تمہارے چھل کو
تیسری آنکھ بناتا ہے بنانے والا

اپنی معصوم بغاوت پہ بڑا ہے پرسن
کاٹھ کی توپ کھلونوں میں سجانے والا

تیر کی نوک پہ میناکشی رہتی ہے سدا
لکشے سادھے گا کہاں تک یہ نشانے والا

نیند پھر آئے گی ساجدؔ تمہیں بے فکری سے
کام کوئی نہ کرو دل کو دکھانے والا