ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائے
راہ رو کوئی نہ ٹھوکر کھائے
زندگی حرف غلط ہی نکلی
ہم نے معنی تو بہت پہنائے
دامن خواب کہاں تک پھیلے
ریگ کی موج کہاں تک جائے
تجھ کو دیکھا ترے وعدے دیکھے
اونچی دیوار کے لمبے سائے
بند کلیوں کی ادا کہتی ہے
بات کرنے کے ہیں سو پیرائے
بام و در کانپ اٹھے ہیں باقیؔ
اس طرح جھوم کے بادل آئے
غزل
ہر طرف بکھر ہیں رنگیں سائے
باقی صدیقی