EN हिंदी
ہر طرف بکھر ہیں رنگیں سائے | شیح شیری
har taraf bikhar hain rangin sae

غزل

ہر طرف بکھر ہیں رنگیں سائے

باقی صدیقی

;

ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائے
راہ رو کوئی نہ ٹھوکر کھائے

زندگی حرف غلط ہی نکلی
ہم نے معنی تو بہت پہنائے

دامن خواب کہاں تک پھیلے
ریگ کی موج کہاں تک جائے

تجھ کو دیکھا ترے وعدے دیکھے
اونچی دیوار کے لمبے سائے

بند کلیوں کی ادا کہتی ہے
بات کرنے کے ہیں سو پیرائے

بام و در کانپ اٹھے ہیں باقیؔ
اس طرح جھوم کے بادل آئے