ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے
دنیا میں محبت کا پرچار بھی کرنا ہے
بے خوابیٔ پیہم سے بیزار بھی کرنا ہے
بستی کو کسی صورت بیدار بھی کرنا ہے
دشمن کے نشانے پر کب تک یونہی بیٹھیں گے
خود کو بھی بچانا ہے اور وار بھی کرنا ہے
شفاف بھی رکھنا ہے گلشن کی فضاؤں کو
ہر برگ گل تر کو تلوار بھی کرنا ہے
کانٹوں سے الجھنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے
پھولوں سے محبت کا اظہار بھی کرنا ہے
اس جرم کی نوعیت معلوم نہیں کیا ہے
انکار بھی کرنا ہے اقرار بھی کرنا ہے
ہونے بھی نہیں دینا بحران کوئی پیدا
موقف پہ ہمیں اپنے اصرار بھی کرنا ہے
طے لمحوں میں کر ڈالیں صدیوں کا سفر لیکن
اس راہ کو اے روحیؔ ہموار بھی کرنا ہے
غزل
ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے
روحی کنجاہی