ہر تار نفس خار ہے معلوم نہیں کیوں
آسان بھی دشوار ہے معلوم نہیں کیوں
سو بار مروں اور جیوں تب انہیں پاؤں
دل اس پہ بھی تیار ہے معلوم نہیں کیوں
سو طرح کے آرام میسر سہی لیکن
دل جینے سے بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
جو لذتیٔ جور و جفا تھا اسی دل پر
اک شوخ نظر بار ہے معلوم نہیں کیوں
اک بار ملی ان سے نظر پی نہیں کوئی
پھر بہکی سی رفتار ہے معلوم نہیں کیوں
سو جان سے ہم جس پہ فدا ہوتے ہیں دن رات
وہ درپئے آزار ہے معلوم نہیں کیوں
جامیؔ وہ مخاطب ہیں مگر عرض تمنا
پھر بھی مجھے دشوار ہے معلوم نہیں کیوں

غزل
ہر تار نفس خار ہے معلوم نہیں کیوں
جامی ردولوی