EN हिंदी
ہر شعر کو گلاب کیا کیا غلط کیا | شیح شیری
har sher ko gulab kiya kya ghalat kiya

غزل

ہر شعر کو گلاب کیا کیا غلط کیا

خالد یوسف

;

ہر شعر کو گلاب کیا کیا غلط کیا
ہاں تیرا انتخاب کیا کیا غلط کیا

روندا نہیں کبھی کسی جگنو کو زیر پا
ذرے کو آفتاب کیا کیا غلط کیا

لب پر ہر ایک شخص کے تھی مصلحت کی مہر
ہم نے ہی کچھ خطاب کیا کیا غلط کیا

جو ماورائے ذہن فقیہاں تھا وہ گناہ
اس کا بھی ارتکاب کیا کیا غلط کیا

کب تک پسیں گے ظلم کی چکی میں میرے لوگ
اعلان انقلاب کیا کیا غلط کیا

جو دشمن‌ عوام تھے نفرت انہیں سے کی
اور عشق بے حساب کیا کیا غلط کیا

اس آس میں کہ سب کو میسر ہو سکھ کی نیند
قرباں ہر ایک خواب کیا کیا غلط کیا

آیا ادب برائے ادب کا خیال جب
لکھنے کا بند باب کیا کیا غلط کیا

خالدؔ رہے نہ سب کی طرح بس قلم قلی
ظلمت کو بے نقاب کیا کیا غلط کیا