ہر شکل رفتہ رفتہ انجان ہو گئی ہے
مشکل تھی جو بھی جس کی آسان ہو گئی ہے
کہنا نہ کچھ کسی سے چپ چپ سے تکتے رہنا
آخر یہی ہماری پہچان ہو گئی ہے
اک شخص بھولا بھالا بستی کی پوچھتا ہے
کیسے کہوں کہ بستی ویران ہو گئی ہے
جو تھا رہا نہ کچھ بھی جو ہے نہ جانے کیا ہے
سو اب یہاں سے رخصت آسان ہو گئی ہے
پہلے تھے ہم ہی حیراں ہم سا نہیں ہے کوئی
اور اب تو ساری دنیا حیران ہو گئی ہے
ایسی چہل پہل تھی مشکل سے لوٹتے تھے
یادوں کی وہ گلی اب سنسان ہو گئی ہے
بس تلخؔ کی روش تھی اب تک بغیر عنواں
اب اس روش کا دوری عنوان ہو گئی ہے
غزل
ہر شکل رفتہ رفتہ انجان ہو گئی ہے
منموہن تلخ