EN हिंदी
ہر شخص میں کچھ لوگ کمی ڈھونڈ رہے ہیں | شیح شیری
har shaKHs mein kuchh log kami DhunD rahe hain

غزل

ہر شخص میں کچھ لوگ کمی ڈھونڈ رہے ہیں

ڈاکٹر اعظم

;

ہر شخص میں کچھ لوگ کمی ڈھونڈ رہے ہیں
نادان ہیں مثبت میں نفی ڈھونڈ رہے ہیں

گل ڈھونڈ رہے ہیں نہ کلی ڈھونڈ رہے ہیں
گلشن میں بس اک شاخ ہری ڈھونڈ رہے ہیں

اس یگ میں کہاں ہم بھی ولی ڈھونڈ رہے ہیں
انساں میں صفات بشری ڈھونڈ رہے ہیں

بادل کی سیاہی میں کرن جیسی چمکتی
ہر غم میں چھپی ہم بھی خوشی ڈھونڈ رہے ہیں

اک شعر جو موزوں نہیں کر پائے ہیں اب تک
غالبؔ کی غزل میں بھی کمی ڈھونڈ رہے ہیں

مدت سے تقاضہ ہے کہ لوٹا دو مرا دل
مدت سے بہانا ہے ابھی ڈھونڈ رہے ہیں

تہذیب و تمدن کو خلوص اور وفا کو
اعظمؔ ہی نہیں آج سبھی ڈھونڈ رہے ہیں