ہر شخص اپنے آپ میں سہما ہوا سا ہے
دیکھو تو شہر سوچو تو ویرانیاں بہت
لیٹا ہوا پنگوڑے میں تکتا ہے آسماں
لکھی ہوئی ہیں آنکھوں میں حیرانیاں بہت
زائیدگان شب کو گوارا نہیں سحر
ڈستی ہیں ان کو صبح کی تابانیاں بہت
دیں کیسے اس کا ہاتھ زمانے کے ہاتھ میں
اب تک تو کی ہیں اس کی نگہبانیاں بہت
پل بھر خوشی بھی ہم نے غنیمت شمار کی
رہتی ہیں یوں بھی دل کو پریشانیاں بہت
کن پتھروں سے ہم نے تراشے ہیں روز و شب
کام آ گئیں ہماری گراں جانیاں بہت
غزل
ہر شخص اپنے آپ میں سہما ہوا سا ہے (ردیف .. ت)
حامد سروش