ہر شے وہی نہیں ہے جو پرچھائیوں میں ہے
اس کے سوا کچھ اور بھی گہرائیوں میں ہے
آئینہ جس سے ٹوٹ کے بے آب ہو گیا
وہ عکس بے نوا بھی تماشائیوں میں ہے
فرصت ملے تو میں بھی کوئی مرثیہ لکھوں
اک دشت کربلا مری تنہائیوں میں ہے
کس شہر میں تلاش کریں رشتۂ وفا
سنتے تو ہیں پرانی شناسائیوں میں ہے
دریا کے زور و شور پہ باتیں ہزار ہوں
پانی مگر وہی ہے جو گہرائیوں میں ہے
گھل جائے شعر میں تو زمیں آسماں بنے
وہ حسن لا زوال جو سچائیوں میں ہے
بے کار اس کو اہل وفا میں گنا گیا
نامیؔ کہاں سے آپ کے شیدائیوں میں ہے

غزل
ہر شے وہی نہیں ہے جو پرچھائیوں میں ہے
نامی انصاری