ہر سمت سکوت بولتا ہے
یہ کون سے جرم کی سزا ہے
ہیں پاؤں لہولہان لیکن
منزل کا پتہ تو مل گیا ہے
اب لائے ہو مژدۂ بہاراں
جب پھول کا رنگ اڑ چکا ہے
زخموں کے دیے کی لو میں رقصاں
ارباب جنوں کا رت جگا ہے
اب تیرے سوا کسے پکاروں
تو میرے وجود کی صدا ہے
غزل
ہر سمت سکوت بولتا ہے
پروین فنا سید