EN हिंदी
ہر سمت سکوت بولتا ہے | شیح شیری
har samt sukut bolta hai

غزل

ہر سمت سکوت بولتا ہے

پروین فنا سید

;

ہر سمت سکوت بولتا ہے
یہ کون سے جرم کی سزا ہے

ہیں پاؤں لہولہان لیکن
منزل کا پتہ تو مل گیا ہے

اب لائے ہو مژدۂ بہاراں
جب پھول کا رنگ اڑ چکا ہے

زخموں کے دیے کی لو میں رقصاں
ارباب جنوں کا رت جگا ہے

اب تیرے سوا کسے پکاروں
تو میرے وجود کی صدا ہے