ہر سمت شور بندہ و صاحب ہے شہر میں
کیا عہد تلخ حفظ مراتب ہے شہر میں
ہر ناروا روا ہے بایں نام مصلحت
اک کار عشق غیر مناسب ہے شہر میں
کس حسن پر تجلی کی ہر چیز ہے اسیر
ہیبت یہ کس کے حکم کی غالب ہے شہر میں
اک خوف دشمنی جو تعاقب میں سب کے ہے
اک حرف لطف جو کہیں غائب ہے شہر میں
میں تنہا بینا شخص ہوں انبوہ خلق میں
سب آئنوں کا رخ مری جانب ہے شہر میں
اس خاک مردہ پر کسے آواز دیں ظفرؔ
ہجرت ہم ایسے لوگوں پہ واجب ہے شہر میں

غزل
ہر سمت شور بندہ و صاحب ہے شہر میں
ظفر عجمی