ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں باد سحری نے
ہر منزل غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت دربدری نے
تھے بزم میں سب دود سر بزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مے خانے میں عاجز ہوئے آزردہ دلی سے
مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے
غزل
ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے
فیض احمد فیض