ہر سانس میں خود اپنے نہ ہونے کا گماں تھا
وہ سامنے آئے تو مجھے ہوش کہاں تھا
کرتی ہیں الٹ پھیر یوں ہی ان کی نگاہیں
کعبہ ہے وہیں آج صنم خانہ جہاں تھا
تقصیر نظر دیکھنے والوں کی ہے ورنہ
ان کا کوئی جلوہ نہ عیاں تھا نہ نہاں تھا
بدلی جو ذرا چشم مشیت کوئی دم کو
ہر سمت بپا محشر فریاد و فغاں تھا
لپکا ہے بگولہ سا ابھی ان کی طرف کو
شاید کسی مجبور کی آہوں کا دھواں تھا
انورؔ مرے کام آئی قیامت میں ندامت
رحمت کا تقاضا مرا ہر اشک رواں تھا
غزل
ہر سانس میں خود اپنے نہ ہونے کا گماں تھا
انور صابری