EN हिंदी
ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے | شیح شیری
har sans hai sharh-e-nakaami phir ishq ko ruswa kaun kare

غزل

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے

دل شاہجہاں پوری

;

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے
تکمیل وفا ہے مٹ جانا جینے کی تمنا کون کرے

جو غافل تھے ہشیار ہوئے جو سوتے تھے بیدار ہوئے
جس قوم کی فطرت مردہ ہو اس قوم کو زندہ کون کرے

ہر صبح کٹی ہر شام کٹی بیداد سہی افتاد سہی
انجام محبت جب یہ ہے اس جنس کا سودا کون کرے

حیراں ہیں نگاہیں دل بے خود محجوب ہے حسن بے پروا
اب عرض تمنا کس سے ہو اب عرض تمنا کون کرے

فطرت ہے ازل سے پابندی کچھ قدر نہیں آزادی کی
نظروں میں ہیں دل کش زنجیریں رخ جانب صحرا کون کرے